سورۃ العلق: انسان کی حقیقت اور سجدے کی فضیلت
سورۃ العلق (اقرأ
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔
اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ (1)
پڑھئیے اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔
خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ (2)
جس نے انسان کو جمے ہوئے خون (علق) سے پیدا کیا۔
اِقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ (3)
پڑھئیے، اور آپ کا رب سب سے زیادہ کریم ہے۔
الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ (4)
جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا۔
عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ (5)
انسان کو وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔
آیت 6 – 8
كَلَّا إِنَّ الْإِنسَانَ لَيَطْغَى (6)
یقیناً انسان سرکشی کرتا ہے۔
أَن رَّآهُ اسْتَغْنَى (7)
جب وہ اپنے آپ کو بے نیاز سمجھتا ہے۔
إِنَّ إِلَى رَبِّكَ الرُّجْعَى (8)
یقیناً تیرے رب ہی کی طرف لوٹنا ہے۔
آیت 9 – 14
أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهَى (9)
کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جو روکتا ہے۔
عَبْدًا إِذَا صَلَّى (10)
ایک بندے کو جب وہ نماز پڑھتا ہے۔
أَرَأَيْتَ إِن كَانَ عَلَى الْهُدَى (11)
کیا آپ نے دیکھا اگر وہ (نمازی) ہدایت پر ہو۔
أَوْ أَمَرَ بِالتَّقْوَى (12)
یا تقویٰ کا حکم دیتا ہو۔
أَرَأَيْتَ إِن كَذَّبَ وَتَوَلَّى (13)
کیا آپ نے دیکھا اگر وہ (روکنے والا) جھٹلائے اور منہ موڑ لے۔
أَلَمْ يَعْلَمْ بِأَنَّ اللَّهَ يَرَى (14)
کیا اسے معلوم نہیں کہ اللہ دیکھ رہا ہے؟
آیت 15 – 19 (انجام کا بیان)
كَلَّا لَئِن لَّمْ يَنتَهِ لَنَسْفَعًا بِالنَّاصِيَةِ (15)
خبردار! اگر وہ باز نہ آیا تو ہم پیشانی کے بالوں سے پکڑ لیں گے۔
نَاصِيَةٍ كَاذِبَةٍ خَاطِئَةٍ (16)
جھوٹی اور خطا کار پیشانی۔
فَلْيَدْعُ نَادِيَهُ (17)
تو وہ اپنے ٹولے کو بلا لے۔
سَنَدْعُ الزَّبَانِيَةَ (18)
ہم بھی دوزخ کے فرشتوں کو بلا لیں گے۔
كَلَّا لَا تُطِعْهُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِب (19)
خبردار! اس کا کہنا مت مانیے، بلکہ سجدہ کیجیے اور اپنے رب کے قریب ہوجائیے۔
تفسیر (آسان انداز میں)
1. پہلی وحی:
یہ سورت غارِ حرا میں نازل ہوئی، جہاں فرشتہ جبرائیلؑ نے نبی ﷺ کو "اقْرَأ" یعنی "پڑھئیے" کا حکم دیا۔ اس سے ظاہر ہوا کہ اسلام کی بنیاد علم اور تعلیم پر ہے۔
2. انسان کی حقیقت:
اللہ نے بتایا کہ انسان ایک معمولی لوتھڑے (علق) سے پیدا ہوا، اس کی اصل کمزور ہے، مگر علم کے ذریعے اللہ نے اسے عزت دی۔
3. علم و قلم کی اہمیت:
"علم بالقلم" یعنی لکھنے پڑھنے کو ذریعہ بنایا گیا۔ اس سے پتا چلا کہ قلم اور علم، انسان کو باقی مخلوقات سے افضل بناتے ہیں۔
4. انسان کی سرکشی:
جب انسان مالدار یا طاقتور ہوتا ہے تو اللہ کو بھول کر سرکشی کرتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر ایک کو واپس رب کی طرف جانا ہے۔
5. ابو جہل کا واقعہ:
ان آیات میں اس شخص کا ذکر ہے جو نبی ﷺ کو نماز پڑھنے سے روکتا تھا (ابوجہل)۔ اللہ نے سخت وعید سنائی کہ اگر وہ باز نہ آیا تو جہنم کے فرشتے اسے پکڑ لیں گے۔
6. سجدے کی فضیلت:
آخری آیت میں حکم ہے: "سجدہ کرو اور رب کے قریب ہو جاؤ۔" یعنی بندہ سب سے زیادہ اللہ کے قریب سجدے میں ہوتا ہے۔
سبق / پیغام
اسلام کی بنیاد علم اور قلم پر ہے۔
انسان کمزور ہے، اسے غرور نہیں کرنا چاہیے۔
نماز اور سجدہ، رب سے قربت کا ذریعہ ہیں۔
اللہ سب کچھ دیکھتا ہے، لہٰذا گناہ اور سرکشی چھوڑنی چاہیے۔
---
Comments
Post a Comment