سورۃ ابراہیم کا مکمل خلاصہ اور اسباق


 آیت 1


الر ۚ كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِ رَبِّهِمْ إِلَىٰ صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ

ترجمہ:

الٓر۔ یہ ایک کتاب ہے جو ہم نے آپ پر نازل کی ہے تاکہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لائیں، ان کے رب کے حکم سے، غالب اور سزاوارِ حمد (تعریف) کے راستے کی طرف۔

تفسیر:

یہاں قرآن مجید کے نزول کا مقصد بتایا گیا ہے کہ انسانوں کو گمراہی، شرک اور جہالت کے اندھیروں سے نکال کر ایمان، توحید اور ہدایت کی روشنی کی طرف لایا جائے۔ "صراطِ عزیز الحمید" سے مراد اللہ کا سیدھا راستہ ہے، جو غالب بھی ہے اور اپنی نعمتوں پر تعریف کے لائق بھی۔

آیت 2

اللَّهِ الَّذِي لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ وَوَيْلٌ لِّلْكَافِرِينَ مِنْ عَذَابٍ شَدِيدٍ

ترجمہ:

وہ اللہ (جس) کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، اور کافروں کے لیے سخت عذاب ہے۔


تفسیر:

یہ آیت بتا رہی ہے کہ زمین و آسمان کی ساری ملکیت اللہ کی ہے۔ جو لوگ اس کے منکر ہیں ان کے لیے عذابِ الیم تیار ہے۔

آیت 3

الَّذِينَ يَسْتَحِبُّونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا عَلَى الْآخِرَةِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ وَيَبْغُونَهَا عِوَجًا ۚ أُولَٰئِكَ فِي ضَلَالٍ بَعِيدٍ

ترجمہ:

یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں اور اللہ کے راستے سے روکتے ہیں اور اس میں کجی چاہتے ہیں۔ یہ لوگ گمراہی میں بہت دور جا پڑے ہیں۔

تفسیر:

کافروں کی تین بڑی خصلتیں بتائی گئیں:


1. دنیا کی محبت کو آخرت پر ترجیح دینا۔


2. دوسروں کو اللہ کے راستے سے روکنا۔


3. دین میں تحریف اور بگاڑ پیدا کرنا۔

ایسے لوگ ہدایت سے بہت دور ہیں۔

آیت 4

وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ فَيُضِلُّ اللَّهُ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

ترجمہ:

ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اپنی قوم کی زبان میں تاکہ وہ ان پر (بات) کھول کر بیان کرے، پھر اللہ جسے چاہے گمراہ کر دے اور جسے چاہے ہدایت دے، اور وہ غالب اور حکمت والا ہے۔

تفسیر:

ہر رسول اپنی قوم کی زبان میں آیا تاکہ پیغام صاف سمجھ میں آئے۔ ہدایت دینا اور گمراہی میں ڈالنا اللہ

 کے اختیار میں ہے، لیکن یہ سب عدل و حکمت کے ساتھ ہوتا ہے۔

آیت 5

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَىٰ بِآيَاتِنَا أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَذَكِّرْهُم بِأَيَّامِ اللَّهِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ

ترجمہ:

اور ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا کہ اپنی قوم کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جاؤ اور انہیں اللہ کے دن یاد دلاؤ۔ بے شک اس میں بڑی نشانیاں ہیں ہر صبر کرنے والے اور شکر کرنے والے کے لیے۔

تفسیر:

یہاں بنی اسرائیل کا ذکر ہے۔ "ایام اللہ" سے مراد وہ دن ہیں جن میں اللہ نے اپنی قدرت ظاہر کی، جیسے فرعون سے نجات کا دن۔ اس میں اشارہ ہے کہ اللہ کی نعمتیں یاد کرنی چاہئیں تاکہ صبر اور شکر پیدا ہو۔

آیت 6

وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ أَنجَاكُم مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ وَيُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ ۚ وَفِي ذَٰلِكُم بَلَاءٌ مِّن رَّبِّكُمْ عَظِيمٌ

ترجمہ:

اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا: اللہ کی نعمت کو یاد کرو جب اس نے تمہیں فرعونیوں سے نجات دی جو تمہیں سخت عذاب دیتے تھے، تمہارے بیٹوں کو قتل کرتے تھے اور تمہاری عورتوں کو زندہ رکھتے تھے۔ اس میں تمہارے رب کی طرف سے بڑی آزمائش تھی۔

تفسیر:

بنی اسرائیل پر فرعون ظلم کرتا تھا۔ اللہ نے ان کو نجات دی، لیکن یہ آزمائش بھی تھی کہ کون صبر کرتا ہے اور کون ناشکری کرتا ہے

آیت 7

وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ

ترجمہ:

اور جب تمہارے رب نے اعلان کیا: اگر تم شکر کرو گے تو میں ضرور تمہیں اور بڑھاؤں گا، اور اگر ناشکری کرو گے تو میرا عذاب یقیناً سخت ہے۔

تفسیر:

یہ آیت شکر و ناشکری کا اصول بیان کرتی ہے۔ شکر کرنے سے نعمتیں بڑھتی ہیں، اور کفرانِ نعمت کرنے سے عذاب آتا ہے۔

آیت 8


وَقَالَ مُوسَىٰ إِن تَكْفُرُوا أَنتُمْ وَمَن فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا فَإِنَّ اللَّهَ لَغَنِيٌّ حَمِيدٌ

ترجمہ:

اور موسیٰ نے کہا: اگر تم اور زمین کے سب لوگ بھی ناشکری کرو تو بھی اللہ بے نیاز اور تعریف کے لائق ہے۔

تفسیر:

اللہ کسی کا محتاج نہیں۔ اس کی عبادت انسان کے فائدے کے لیے ہے۔

آیت 9

أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَبَؤُا الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ وَالَّذِينَ مِن بَعْدِهِمْ لَا يَعْلَمُهُمْ إِلَّا اللَّهُ ۚ جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْوَاهِهِمْ وَقَالُوا إِنَّا كَفَرْنَا بِمَا أُرْسِلْتُم بِهِ وَإِنَّا لَفِي شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُونَنَا إِلَيْهِ مُرِيبٍ


ترجمہ:

کیا تمہیں ان لوگوں کی خبر نہیں پہنچی جو تم سے پہلے تھے؟ قوم نوح، عاد، ثمود اور ان کے بعد والے جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ان کے پاس ان کے رسول نشانیاں لے کر آئے، لیکن انہوں نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیے اور کہا: ہم اس چیز کے منکر ہیں جسے لے کر تم آئے ہو اور ہم اس چیز کے بارے میں شک میں ہیں جس کی طرف تم ہمیں بلاتے ہو۔


تفسیر:

پچھلی قوموں کی مثال بیان کی جا رہی ہے کہ انہوں نے رسولوں کو جھٹلایا اور شک میں مبتلا ہو کر ایمان سے انکار کیا۔

آیت 10

قَالَتْ رُسُلُهُمْ أَفِي اللَّهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ يَدْعُوكُمْ لِيَغْفِرَ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرَكُمْ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ قَالُوا إِنْ أَنتُمْ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا تُرِيدُونَ أَن تَصُدُّونَا عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُنَا فَأْتُونَا بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ

ترجمہ:

ان کے رسولوں نے کہا: کیا اللہ میں شک ہے؟ وہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا! وہ تمہیں بلاتا ہے تاکہ تمہارے گناہوں کو معاف کرے اور ایک مقررہ وقت تک تمہیں مہلت دے۔ انہوں نے کہا: تم تو ہم جیسے انسان ہو، تم چاہتے ہو کہ ہمیں اس چیز سے روک دو جسے ہمارے باپ دادا پوجتے تھے، لہٰذا ہمارے پاس کوئی کھلی دلیل لے آؤ۔

تفسیر:

رسولوں نے انکار کرنے والوں کو سمجھایا کہ اللہ پر ایمان لانا عقل و فطرت کی بات ہے۔ لیکن کفار نے ہمیشہ یہی

 کہا کہ "تم ہمارے جیسے انسان ہو، ہمیں ہمارے باپ دادا کے دین سے نہ روکو۔

آیت 11

قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ إِن نَّحْنُ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ وَلَـٰكِنَّ اللَّهَ يَمُنُّ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۖ وَمَا كَانَ لَنَا أَن نَّأْتِيَكُم بِسُلْطَانٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ

ترجمہ:

ان کے رسولوں نے ان سے کہا: ہم بھی تمہارے ہی جیسے انسان ہیں، لیکن اللہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے فضل فرماتا ہے، اور ہمارے لیے یہ ممکن نہیں کہ ہم کوئی دلیل (معجزہ) لے آئیں مگر اللہ کے حکم سے، اور ایمان والوں کو تو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔

تفسیر:

یہاں رسولوں نے اپنی قوم کو جواب دیا کہ وہ انسان ہیں مگر اللہ نے ان کو اپنی وحی اور نبوت کے لیے چن لیا۔ معجزات وہ اپنی مرضی سے نہیں لا سکتے بلکہ اللہ کے حکم سے ہی ظاہر کرتے ہیں۔ اصل اعتماد اللہ پر ہونا چاہیے۔

آیت 12

وَمَا لَنَا أَلَّا نَتَوَكَّلَ عَلَى اللَّهِ وَقَدْ هَدَانَا سُبُلَنَا ۚ وَلَنَصْبِرَنَّ عَلَىٰ مَا آذَيْتُمُونَا ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ

ترجمہ:

ہم کیوں اللہ پر بھروسہ نہ کریں جبکہ اسی نے ہمیں ہمارے راستے دکھائے ہیں؟ اور جو تکلیفیں تم ہمیں دیتے ہو ہم ان پر ضرور صبر کریں گے، اور بھروسہ کرنے والوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔

تفسیر:

رسولوں نے کہا کہ ہمارا توکل اللہ پر ہے، کیونکہ وہی ہدایت دینے والا ہے۔ قوم کی ایذاؤں پر صبر کرنا لازمی ہے۔ اہل ایمان کے لیے نمونہ دیا گیا کہ مشکلات کے باوجود اللہ پر بھروسہ قائم رکھنا ہے۔

آیت 13

وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِرُسُلِهِمْ لَنُخْرِجَنَّكُم مِّنْ أَرْضِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا ۖ فَأَوْحَىٰ إِلَيْهِمْ رَبُّهُمْ لَنُهْلِكَنَّ الظَّالِمِينَ

ترجمہ:

اور کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا: ہم تمہیں اپنی زمین سے ضرور نکال دیں گے یا پھر تم ہمارے دین میں واپس آجاؤ۔ تو ان کے رب نے ان پر وحی کی کہ ہم یقیناً ان ظالموں کو ہلاک کریں گے۔

تفسیر:

کافروں نے اپنے رسولوں کو دھمکی دی کہ یا تو ہماری ملت میں واپس آ جاؤ ورنہ ہم تمہیں ملک بدر کر دیں گے۔ اللہ نے اپنے رسولوں کو تسلی دی کہ ظالموں کی ہلاکت یقینی ہے۔

آیت 14

وَلَنُسْكِنَنَّكُمُ الْأَرْضَ مِن بَعْدِهِمْ ۚ ذَٰلِكَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِي وَخَافَ وَعِيدِ

ترجمہ:

اور ہم تمہیں ان کے بعد اس زمین میں ضرور بسا دیں گے۔ یہ وعدہ اس کے لیے ہے جو میرے حضور کھڑے ہونے سے ڈرے اور میری وعید سے خوف کھائے۔

تفسیر:

اللہ نے رسولوں اور اہل ایمان کو خوشخبری دی کہ ظالموں کے خاتمے کے بعد زمین پر ان کو آباد کیا جائے گا۔ یہ نعمت صرف ان لوگوں کو ملے گی جو اللہ کے حضور پیشی کا خوف رکھتے ہیں۔

آیت 15

وَاسْتَفْتَحُوا وَخَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ

ترجمہ:

اور انہوں نے (اللہ سے) فیصلہ چاہا، تو ہر سرکش ضدی ناکام و نامراد ہوا۔

تفسیر:

رسولوں اور مومنوں نے اللہ کی مدد طلب کی اور فیصلہ اللہ کے حکم سے آی

ا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہر سرکش اور حق کے مخالف ذلیل و رسوا ہوا۔

آیت 16

مِّن وَرَائِهِ جَهَنَّمُ وَيُسْقَىٰ مِن مَّاءٍ صَدِيدٍ

ترجمہ:

اس کے پیچھے جہنم ہے، اور اسے پیلا جائے گا پیپ اور خون والا پانی۔

تفسیر:

یہ آیت ان سرکش اور ضدی لوگوں کے انجام کی تصویر پیش کرتی ہے۔ ان کے لیے جہنم تیار ہے جہاں انہیں ایسا بدبو دار اور گندہ پانی پینے کو دیا جائے گا جو ان کے جسموں کے زخموں اور پیپ سے بہے گا۔

آیت 17

يَتَجَرَّعُهُ وَلَا يَكَادُ يُسِيغُهُ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِن كُلِّ مَكَانٍ وَمَا هُوَ بِمَيِّتٍ ۖ وَمِن وَرَائِهِ عَذَابٌ غَلِيظٌ

ترجمہ:

وہ اس کو گھونٹ گھونٹ کر پینے کی کوشش کرے گا مگر آسانی سے حلق سے نہ اتر سکے گا، اور اسے ہر طرف سے موت آئے گی مگر وہ مرے گا نہیں، اور اس کے بعد بھی اس کے لیے سخت عذاب ہے۔

تفسیر:

جہنم میں اہل کفر موت کی تمنا کریں گے۔ وہ بدبو دار پانی پئیں گے مگر حلق سے نیچے نہ جائے گا۔ ہر طرف سے عذاب انہیں موت کے قریب لے جائے گا لیکن موت نہیں آئے گی۔ یہ مسلسل اور نہ ختم ہونے والا عذاب ہے۔

آیت 18

مَّثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ أَعْمَالُهُمْ كَرَمَادٍ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ فِي يَوْمٍ عَاصِفٍ ۖ لَا يَقْدِرُونَ مِمَّا كَسَبُوا عَلَىٰ شَيْءٍ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الضَّلَالُ الْبَعِيدُ

ترجمہ:

جن لوگوں نے اپنے رب سے کفر کیا ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے راکھ جس پر تیز آندھی چلے، وہ ان اعمال میں سے کچھ بھی اپنے ہاتھ میں نہ رکھ سکیں گے۔ یہی بہت دور کی گمراہی ہے۔

تفسیر:

کافروں کے اعمال (چاہے دنیا میں کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوں) آخرت میں بالکل بے کار ہوں گے۔ ان کی مثال ایسی ہے جیسے راکھ کے ذرے جنہیں آندھی اڑا لے جائے اور کوئی نشان نہ چھوڑے۔ یہ گمراہی کی انتہا ہے۔

آیت 19

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ ۚ إِن يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ وَيَأْتِ بِخَلْقٍ جَدِيدٍ

ترجمہ:

کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا؟ اگر وہ چاہے تو تمہیں مٹا کر نئی مخلوق لے آئے۔

تفسیر:

یہاں اللہ اپنی قدرت بیان کرتا ہے کہ جس نے آسمان و زمین کو حکمت اور مقصد کے ساتھ پیدا کیا ہے، وہ چاہے تو انسان کو فنا کرکے ایک نئی مخلوق پیدا کر سکتا ہے۔ اس سے مراد ہے کہ انسان کو مغرور نہیں ہونا چاہیے۔

آیت 20

وَمَا ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ بِعَزِيزٍ

ترجمہ:

اور یہ اللہ پر کچھ بھی مشکل نہیں۔

تفسیر:

یعنی انسان کو ختم کر دینا اور نئی مخ

لوق پیدا کرنا اللہ کے لیے بہت آسان ہے۔ اس کے حکم کی دیر ہے۔

آیت 21


وَبَرَزُوا لِلَّهِ جَمِيعًا فَقَالَ الضُّعَفَاءُ لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا إِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعًا فَهَلْ أَنتُم مُّغْنُونَ عَنَّا مِنْ عَذَابِ اللَّهِ مِن شَيْءٍ ۚ قَالُوا لَوْ هَدَانَا اللَّهُ لَهَدَيْنَاكُمْ ۖ سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا مَا لَنَا مِن مَّحِيصٍ


ترجمہ:

اور سب کے سب اللہ کے سامنے حاضر ہوں گے۔ پس کمزور لوگ ان بڑے لوگوں سے کہیں گے جو تکبر کرتے تھے: ہم تو تمہارے پیروکار تھے، تو کیا تم اللہ کے عذاب میں سے کچھ ہم سے ہٹا سکتے ہو؟ وہ کہیں گے: اگر اللہ نے ہمیں ہدایت دی ہوتی تو ہم بھی تمہیں ہدایت دیتے۔ اب ہمارے لیے سب برابر ہے، ہم گھبرائیں یا صبر کریں، ہمارے لیے بچنے کی کوئی جگہ نہیں۔


تفسیر:

قیامت کے دن کمزور لوگ (جو دنیا میں سرداروں کے پیچھے گمراہی میں چلتے تھے) ان سے امید لگائیں گے۔ لیکن وہ سردار خود بے بس ہوں گے اور کہیں گے کہ نہ ہم اپنے آپ کو بچا سکے نہ تمہیں۔ اس دن کسی کی کسی پر مدد نہ ہوگی۔



---


آیت 22


وَقَالَ الشَّيْطَانُ لَمَّا قُضِيَ الْأَمْرُ إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدتُّكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ ۖ وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُم مِّن سُلْطَانٍ إِلَّا أَن دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِي ۖ فَلَا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنفُسَكُم ۖ مَّا أَنَا۠ بِمُصْرِخِكُمْ وَمَا أَنتُم بِمُصْرِخِيَّ ۖ إِنِّي كَفَرْتُ بِمَا أَشْرَكْتُمُونِ مِن قَبْلُ ۗ إِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ


ترجمہ:

اور جب فیصلہ ہو جائے گا تو شیطان کہے گا: بے شک اللہ نے تم سے سچا وعدہ کیا تھا اور میں نے تم سے وعدہ کیا تو میں نے خلاف کیا۔ میرا تم پر کوئی زور نہ تھا سوائے اس کے کہ میں نے تمہیں بلایا اور تم مان گئے۔ پس مجھے ملامت نہ کرو بلکہ اپنے آپ کو ملامت کرو۔ نہ میں تمہاری فریاد رس ہوں اور نہ تم میری فریاد رس ہو۔ میں اس سے بھی انکار کرتا ہوں کہ تم نے مجھے پہلے اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرایا۔ بے شک ظالموں کے لیے دردناک عذاب ہے۔


تفسیر:

شیطان قیامت کے دن اپنے پیروکاروں سے برأت کرے گا۔ وہ کہے گا کہ میں نے بس بلایا تھا، تم نے خود مانا۔ میرا کوئی زور نہ تھا۔ یہ بتاتا ہے کہ گمراہی میں اصل ذمہ داری انسان کی اپنی ہے، شیطان کا نہیں۔



---


آیت 23


وَأُدْخِلَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ ۖ تَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلَامٌ


ترجمہ:

اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیے وہ جنتوں میں داخل کیے جائیں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔ وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے اپنے رب کے حکم سے۔ وہاں ان کی دعا و سلامتی کی صدا "سلام" ہوگی۔


تفسیر:

یہ اہل ایمان کا انجام ہے۔ انہیں جنت کی دائمی نعمتیں ملیں گی، وہاں سلامتی اور محبت کا پیغام ہوگا۔ جنت کی فضا امن، سکون اور خوشی سے بھری ہوگی۔



---


آیت 24


أَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ


ترجمہ:

کیا تم نے نہیں دیکھا اللہ نے کس طرح ایک پاکیزہ بات کی مثال دی ہے؟ وہ ایک پاکیزہ درخت کی طرح ہے جس کی جڑ مضبوط ہے اور شاخیں آسمان تک بلند ہیں۔


تفسیر:

یہاں "پاکیزہ بات" سے مراد کلمہ طیبہ (لا إله إلا الله) ہے۔ جس طرح ایک درخت زمین میں گہری جڑیں رکھتا ہے اور آسمان کی طرف بڑھتا ہے، اسی طرح ایمان دل میں مضبوطی پکڑتا ہے اور نیکیوں میں ترقی کرتا ہے۔

آیت 25

تُؤْتِي أُكُلَهَا كُلَّ حِينٍ بِإِذْنِ رَبِّهَا ۗ وَيَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ

ترجمہ:

وہ درخت اپنے رب کے حکم سے ہر وقت پھل دیتا ہے۔ اور اللہ مثالیں بیان کرتا ہے تاکہ لوگ نصیحت پکڑیں۔

تفسیر:

ایمان والا شخص مسلسل نیک اعمال کرتا ہے اور اس کے اثرات دنیا و آخرت میں نظر آتے ہیں۔ جیسے درخت بار بار پھل دیتا ہے۔

آیت 26

وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ اجْتُثَّتْ مِن فَوْقِ الْأَرْضِ مَا لَهَا مِن قَرَارٍ

ترجمہ:

اور ناپاک بات کی مثال ایک ناپاک درخت کی طرح ہے جو زمین کے اوپر سے اکھاڑ دیا جائے، اس کی کوئی جڑ باقی نہ رہے۔

تفسیر:

باطل عقیدہ، شرک اور کفر کی مثال ایسے درخت کی ہے جو جڑ سے اکھاڑ دیا جائے۔ اس کا کوئی ثبات اور کوئی فائدہ نہیں۔

آیت 27

يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۖ وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ ۚ وَيَفْعَلُ اللَّهُ مَا يَشَاءُ

ترجمہ:

اللہ ایمان والوں کو دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی پختہ کلمے کے ساتھ ثابت قدم رکھتا ہے، اور اللہ ظالموں کو گمراہ کرتا ہے، اور اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔

تفسیر:

یہاں "قول ثابت" سے مراد کلمہ طیبہ ہے۔ دنیا میں ایمان والوں کے دلوں کو ثابت قدمی ملتی ہے، اور قبر میں بھی جب فرشتے سوال کریں گ

ے تو وہ "میرا رب اللہ ہے" کہہ سکیں گے۔ کافروں اور ظالموں کو اس سے محروم رکھا جائے گا۔

آیت 28

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُوا نِعْمَتَ اللَّهِ كُفْرًا وَأَحَلُّوا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ

ترجمہ:

کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے اللہ کی نعمت کو کفر سے بدل دیا اور اپنی قوم کو ہلاکت کے گھر میں پہنچا دیا؟

تفسیر:

یہاں کفارِ قریش اور خاص طور پر سردارانِ مکہ کی طرف اشارہ ہے جنہوں نے اللہ کی سب سے بڑی نعمت (رسول اللہ ﷺ کی رسالت) کو جھٹلا دیا اور اپنی قوم کو جہنم کی طرف لے گئے۔

آیت 29

جَهَنَّمَ يَصْلَوْنَهَا ۖ وَبِئْسَ الْقَرَارُ

ترجمہ:

جہنم، جس میں وہ داخل ہوں گے، اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔

تفسیر:

کفر اور نافرمانی کی وجہ سے ان کا آخری ٹھکانا جہنم ہے، جو نہایت برا اور عذاب ناک مقام ہے۔

آیت 30

وَجَعَلُوا لِلَّهِ أَندَادًا لِّيُضِلُّوا عَن سَبِيلِهِ ۗ قُلْ تَمَتَّعُوا فَإِنَّ مَصِيرَكُمْ إِلَى النَّارِ

ترجمہ:

اور انہوں نے اللہ کے لیے شریک ٹھہرائے تاکہ لوگوں کو اس کے راستے سے بھٹکائیں۔ کہہ دو: "تم (دنیا کی) چند روزہ زندگی سے فائدہ اٹھا لو، تمہارا انجام تو آگ ہے۔"

تفسیر:

مشرکین اللہ کے ساتھ جھوٹے شریک بناتے ہیں اور دوسروں کو بھی بہکاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے نبی ﷺ کو حکم دیتے ہیں کہ ان سے کہہ دیں: چند دن کی یہ عیش و آرام ہے، انجام کار تم جہنم کے ایندھن بنو گے۔

آیت 31

قُل لِّعِبَادِيَ الَّذِينَ آمَنُوا يُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُنفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خِلَالٌ

ترجمہ:

(اے نبی ﷺ) میرے ایمان والے بندوں سے کہہ دو کہ نماز قائم کریں اور ہم نے انہیں جو رزق دیا ہے اس میں سے چھپے اور کھلے خرچ کریں، اس دن کے آنے سے پہلے جب نہ خرید و فروخت ہوگی اور نہ دوستی کام آئے گی۔

تفسیر:

یہ آیت اہل ایمان کو نصیحت کرتی ہے کہ آخرت کے دن سے پہلے پہلے نیک عمل کریں۔ اس دن نہ تجارت نفع دے گی اور نہ دنیاوی تعلقات کام آئیں گے، صرف ایمان اور نیک عمل فائدہ دے گا۔

آیت 32

اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَّكُمْ ۖ وَسَخَّرَ لَكُمُ الْفُلْكَ لِتَجْرِيَ فِي الْبَحْرِ بِأَمْرِهِ وَسَخَّرَ لَكُمُ الْأَنْهَارَ

ترجمہ:

اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور آسمان سے پانی اتارا، پھر اس سے تمہارے لیے پھلوں کو روزی بنایا، اور کشتی کو تمہارے تابع کر دیا تاکہ وہ اس کے حکم سے سمندر میں چلے، اور دریاؤں کو بھی تمہارے تابع کیا۔

تفسیر:

اللہ اپنی نعمتیں یاد دلاتا ہے کہ اس نے زمین و آسمان، بارش، پھل، سمندر اور دریا انسان کی خدمت میں لگا دیے۔ مقصد یہ ہے کہ انسان ا

ن نعمتوں کو دیکھ کر شکر گزار بنے، نہ کہ ناشکری اور شرک کرے۔

آیت 33

وَسَخَّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَائِبَيْنِ ۖ وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ

ترجمہ:

اور اُس نے تمہارے لیے سورج اور چاند کو پابندی سے چلنے والا بنا دیا، اور تمہارے لیے رات اور دن کو مسخر کر دیا۔

تفسیر:

اللہ تعالیٰ نے انسان کے فائدے کے لیے کائنات کے بڑے بڑے نظام بنا دیے، سورج اور چاند وقت کے حساب اور روشنی کے لیے، رات آرام کے لیے اور دن محنت و روزی کمانے کے لیے۔ یہ سب انسان کی خدمت میں لگے ہیں۔

آیت 34

وَآتَاكُم مِّن كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ ۚ وَإِن تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا ۗ إِنَّ الْإِنسَانَ لَظَلُومٌ كَفَّارٌ

ترجمہ:

اور اس نے تمہیں وہ سب کچھ دیا جو تم نے اس سے مانگا، اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو انہیں شمار نہ کرسکو گے۔ بے شک انسان بڑا ہی ظالم اور ناشکرا ہے۔

تفسیر:

اللہ نے انسان کو ہر وہ چیز عطا کی جس کی اس نے حاجت محسوس کی، مگر انسان پھر بھی اللہ کی نعمتوں کو بھلا کر ناشکری کرتا ہے۔ اس آیت میں انسان کی کمزوری اور کفرانِ نعمت پر تنبیہ کی گئی ہے

آیت 35

وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَٰذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَن نَّعْبُدَ الْأَصْنَامَ

ترجمہ:

اور (یاد کرو) جب ابراہیم نے کہا: "اے میرے رب! اس شہر (مکہ) کو امن والا بنا دے، اور مجھے اور میری اولاد کو بتوں کی عبادت سے بچا۔"

تفسیر:

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ دعا مکہ مکرمہ کے لیے ہے کہ یہ ہمیشہ امن و سلامتی کا شہر رہے۔ ساتھ ہی انہوں نے اپنے اور اپنی اولاد کے لیے سب سے بڑی دعا یہ کی کہ شرک اور بت پرستی سے محفوظ رہیں۔

آیت 36

رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ ۖ فَمَن تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي ۖ وَمَنْ عَصَانِي فَإِنَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ:

اے میرے رب! ان بتوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کر دیا ہے، پس جو شخص میرا پیچھا کرے وہ میرا ہے، اور جو میری نافرمانی کرے تو بے شک تو بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔

تفسیر:

حضرت ابراہیمؑ نے بتوں کی گمراہی کا اعتراف کیا اور اپنی امت کے حق میں دعا کی کہ جو ان کی راہ پر ہوں وہ ان کے ماننے والے ہیں، اور جو نہ مانے اللہ ہی بہتر فیصلہ کرنے والا اور غفور و رحیم ہے۔

آیت 37

رَبَّنَا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِن ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِندَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُم مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ

ترجمہ:

اے ہمارے رب! میں نے اپنی کچھ اولاد کو تیرے محترم گھر کے قریب ایک بےآب و گیاہ وادی میں بسایا ہے، اے ہمارے رب! تاکہ وہ نماز قائم کریں، تو لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر دے اور انہیں پھلوں کی روزی عطا فرما، تاکہ وہ شکر گزار بنیں۔

تفسیر:

یہ حضرت ابراہیمؑ کی دعا ہے جب انہوں نے حضرت ہاجرہؑ اور حضرت اسماعیلؑ کو مکہ کی بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑا۔ دعا میں مقصد ذکر کیا کہ وہ اللہ کی عبادت اور نماز قائم کریں، اور رزق کی دعا کی تاکہ وہ شکر گزار رہیں۔

آیت 38

رَبَّنَا إِنَّكَ تَعْلَمُ مَا نُخْفِي وَمَا نُعْلِنُ ۗ وَمَا يَخْفَىٰ عَلَى اللَّهِ مِن شَيْءٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ

ترجمہ:

اے ہمارے رب! بے شک تو جانتا ہے جو ہم چھپاتے ہیں اور جو ہم ظاہر کرتے ہیں، اور زمین و آسمان کی کوئی چیز اللہ سے چھپی نہیں رہتی۔

تفسیر:

ابراہیمؑ نے اپنے رب کے علم کامل کا اقرار کیا کہ وہ ظاہر و پوشیدہ سب کچھ جانتا ہے۔ یہ دعا اس بات کی

 طرف اشارہ ہے کہ دل کے اخلاص اور نیتوں کا بھی حساب اللہ ہی کے علم میں ہے۔

آیت 39

الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ ۚ إِنَّ رَبِّي لَسَمِيعُ الدُّعَاءِ

ترجمہ:

سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیل اور اسحاق عطا کیے۔ بے شک میرا رب دعا سننے والا ہے۔

تفسیر:

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بڑھاپے میں اللہ کی طرف سے عطا کی گئی اولاد پر شکر ادا کیا۔ اسماعیلؑ اور اسحاقؑ دونوں اللہ کی طرف سے خاص انعام تھے۔ ساتھ ہی اللہ کو ’’دعاؤں کا سننے والا‘‘ قرار دیا۔

آیت 40

رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَاةِ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۚ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ

ترجمہ:

اے میرے رب! مجھے اور میری اولاد کو نماز قائم کرنے والا بنا، اے ہمارے رب! میری دعا قبول فرما۔

تفسیر:

ابراہیمؑ کی دعا میں سب سے اہم درخواست یہ ہے کہ وہ اور ان کی نسل ہمیشہ نماز قائم کرنے والی ہو۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ نماز دین کا بنیادی ستون ہے۔

آیت 41

رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ

ترجمہ:

اے ہمارے رب! مجھے بخش دے اور میرے والدین کو بھی، اور سب ایمان والوں کو بھی، جس دن حساب قائم ہوگا۔

تفسیر:

یہ آیت ابراہیمؑ کی مغفرت کی دعا ہے، جس میں انہوں نے اپنی، اپنے والدین اور تمام اہلِ ایمان کی بخشش مانگی۔ یہ دعا قیامت کے دن کی تیاری کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

آیت 42

وَلَا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غَافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ ۚ إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصَارُ

ترجمہ:

اور ظالموں کے کاموں کے بارے میں یہ نہ سمجھ کہ اللہ غافل ہے۔ وہ تو انہیں صرف اُس دن کے لیے مہلت دے رہا ہے جس دن آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔

تفسیر:

یہ ظالموں کے لیے وارننگ ہے کہ اللہ کی پکڑ سے کوئی بچ نہیں سکتا۔ دنیا میں مہلت ملنا یہ نہیں کہ اللہ بے خبر ہے، بلکہ یہ آزمائش ہے، اصل پکڑ قیامت کے دن ہوگی۔

آیت 43

مُهْطِعِينَ مُقْنِعِي رُءُوسِهِمْ لَا يَرْتَدُّ إِلَيْهِمْ طَرْفُهُمْ ۖ وَأَفْئِدَتُهُمْ هَوَاءٌ

ترجمہ:

وہ (قیامت کے دن) تیزی سے دوڑتے ہوں گے، اپنے سر اٹھائے ہوئے، ان کی نظریں (خوف سے) پلٹ نہ سکیں گی، اور ان کے دل اڑے جا رہے ہوں گے۔

تفسیر:

یہ قیامت کے دن کے ہولناک مناظر ہیں۔ لوگ گھبراہٹ اور دہشت سے بدحال ہوں گے، ان کی آنکھیں ساکت، اور دل خوف سے خالی ہو جائیں گے۔

آیت 44

وَأَنذِرِ النَّاسَ يَوْمَ يَأْتِيهِمُ الْعَذَابُ فَيَقُولُ الَّذِينَ ظَلَمُوا رَبَّنَا أَخِّرْنَا إِلَىٰ أَجَلٍ قَرِيبٍ نُّجِبْ دَعْوَتَكَ وَنَتَّبِعِ الرُّسُلَ ۗ أَوَلَمْ تَكُونُوا أَقْسَمْتُم مِّن قَبْلُ مَا لَكُم مِّن زَوَالٍ

ترجمہ:

اور لوگوں کو اس دن سے ڈرا دے جب ان پر عذاب آئے گا، تو ظالم کہیں گے: "اے ہمارے رب! ہمیں تھوڑی سی مہلت دے دے، تاکہ ہم تیری دعوت قبول کریں اور رسولوں کی پیروی کریں۔" (انہیں کہا جائے گا:) کیا تم پہلے یہ قسمیں نہیں کھایا کرتے تھے کہ تمہیں کبھی زوال نہ ہوگا؟

تفسیر:

یہ آیت بتاتی ہے کہ قیامت کے دن ظالم لوگ مہلت مانگیں گے، مگر انہیں جواب ملے گا کہ دنیا میں تمہیں کافی موقع دیا گیا تھا۔ دنیا میں غرور و تکبر کے ساتھ جیتے رہے، اب واپسی کا کوئی موقع نہیں۔

آیت 45

وَسَكَنْتُمْ فِي مَسَاكِنِ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنَا بِهِمْ وَضَرَبْنَا لَكُمُ الْأَمْثَالَ

ترجمہ:

اور تم ان لوگوں کے گھروں میں آباد ہوئے جو اپنے اوپر ظلم کرتے رہے تھے، اور تمہیں خوب معلوم تھا کہ ہم نے ان کے ساتھ کیا کیا، اور ہم نے تمہارے لیے مثالیں بھی بیان کی تھیں۔

تفسیر:

یہاں اللہ تعالیٰ یاد دلا رہا ہے کہ ظالم قوموں کا انجام تمہارے سامنے ہے۔ تم ان کے کھنڈرات میں رہتے ہو، ت

مہیں ان کی تباہی کی خبریں معلوم ہیں۔ پھر بھی نصیحت نہ لینا انسان کی غفلت کی نشانی ہے۔

آیت 46

وَقَدْ مَكَرُوا مَكْرَهُمْ وَعِندَ اللَّهِ مَكْرُهُمْ وَإِن كَانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُولَ مِنْهُ الْجِبَالُ

ترجمہ:

انہوں نے اپنی (چالاکیاں اور) سازشیں کیں، لیکن ان کی سب تدبیریں اللہ کے علم میں ہیں۔ اور اگرچہ ان کی تدبیر ایسی تھی کہ اس سے پہاڑ تک ہل جائیں۔

تفسیر:

کفار اور ظالم لوگ اللہ کے دین کے خلاف سازشیں کرتے ہیں، لیکن اللہ ان سب پر قابو رکھتا ہے۔ ان کی قوت اور منصوبے چاہے پہاڑ جیسی مضبوط ہوں، اللہ کے آگے کچھ نہیں۔

آیت 47

فَلَا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ ذُو انتِقَامٍ

ترجمہ:

پس یہ نہ سمجھو کہ اللہ اپنے رسولوں سے کیا ہوا وعدہ خلاف کرے گا۔ بے شک اللہ زبردست ہے، انتقام لینے والا ہے۔

تفسیر:

اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ اپنے رسولوں اور اہلِ ایمان کی مدد کرے گا اور ظالموں کو انجام تک پہنچائے گا۔ اس وعدے میں کوئی تبدیلی نہیں۔

آیت 48

يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ وَالسَّمَاوَاتُ وَبَرَزُوا لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ

ترجمہ:

جس دن زمین بدل دی جائے گی دوسری زمین سے، اور آسمان بھی (بدل دیے جائیں گے)، اور سب لوگ نکل کھڑے ہوں گے اللہ کے سامنے، جو یکتا اور سب پر غالب ہے۔

تفسیر:

یہ قیامت کا منظر ہے۔ اس دن موجودہ زمین و آسمان کی شکل بدل دی جائے گی، سب مخلوق اللہ کے سامنے حاضر ہوگی، کوئی بھاگنے کی جگہ نہ ہوگی۔

آیت 49

وَتَرَى الْمُجْرِمِينَ يَوْمَئِذٍ مُّقَرَّنِينَ فِي الْأَصْفَادِ

ترجمہ:

اور اس دن تم مجرموں کو دیکھو گے کہ وہ بیڑیوں میں جکڑے ہوں گے۔

تفسیر:

کفار اور گناہگار زنجیروں میں جکڑے جائیں گے، تاکہ ان کی بے بسی اور ذلت ظاہر ہو۔

آیت 50

سَرَابِيلُهُم مِّن قَطِرَانٍ وَتَغْشَىٰ وُجُوهَهُمُ النَّارُ

ترجمہ:

ان کے کپڑے تیل کی طرح چپکنے والے مادّے (قطران) کے ہوں گے، اور ان کے چہروں کو آگ ڈھانپ لے گی۔

تفسیر:

یہ جہنم کا عذاب ہے۔ قطران (tar) نہ صرف بدبو دار ہوتا ہے بلکہ جلد کو جلا دیتا ہے۔ آگ ان کے چہروں کو گھیر لے گی۔

آیت 51

لِيَجْزِيَ اللَّهُ كُلَّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ

ترجمہ:

تاکہ اللہ ہر شخص کو اس کے کیے کا بدلہ دے۔ بے شک اللہ بہت جلد حساب لینے والا ہے۔

تفسیر:

قیامت کے دن ہر ایک کو اس کے اعمال کا پورا بدلہ دیا جائے گا، نیک کو نیکی اور بدکار کو بدی کا۔

آیت 52

هَـٰذَا بَلَاغٌ لِّلنَّاسِ وَلِيُنذَرُوا بِهِ وَلِيَعْلَمُوا أَنَّمَا هُوَ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ وَلِيَذَّكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ

ترجمہ:

یہ (قرآن) لوگوں کے لیے پیغام ہے، تاکہ انہیں اس کے ذریعے ڈرایا جائے، اور وہ جان لیں کہ صرف ایک ہی معبود ہے، اور عقل والے نصیحت حاصل کریں۔

تفسیر:

سورۃ ابراہیم کا اختتام اس پیغام پر ہوا کہ قرآن ہدایت اور نصیحت ہے۔ یہ لوگوں کو قیامت سے ڈراتا ہے اور توحید کی دعوت دیتا ہے۔ جو لوگ عقل والے ہیں، وہی اس سے نصیحت لیتے ہیں۔


              اس طرح سورۃ ابراہیم مکمل ہوگئی۔



                               اہم مضامین:



1. قرآن کی ہدایت

قرآن کو لوگوں کے اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لانے کے لیے نازل کیا گیا ہے۔



2. توحید اور شرک کی تردید

بار بار یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ اللہ ہی خالق و مالک ہے، اسی کی عبادت کرو اور شرک سے بچو۔



3. اللہ کی نعمتوں کا ذکر

اللہ نے زمین و آسمان، سورج، چاند اور بارش کے ذریعے بے شمار نعمتیں عطا کی ہیں۔ انسان کو چاہیے کہ شکر ادا کرے، ناشکری نہ کرے۔



4. گذشتہ قوموں کی مثالیں

پچھلی امتوں (قومِ نوح، عاد، ثمود، اور فرعون) کا انجام بتایا گیا تاکہ لوگ عبرت حاصل کریں۔



5. دعائے ابراہیم علیہ السلام

حضرت ابراہیمؑ کی دعائیں بیان ہوئیں، جیسے:


مکہ کو امن والا شہر بنانے کی دعا


اپنی اولاد کو نماز کا پابند بنانے کی دعا


رزق کی دعا

یہ دعائیں ایمان والوں کے لیے بہترین سبق ہیں۔




6. قیامت کا منظر

قیامت کے دن زمین و آسمان بدل جائیں گے، گناہگار زنجیروں میں جکڑے ہوں گے، ان کے کپڑے قطران (tar) کے ہوں گے اور آگ ان کے چہروں کو گھیر لے گی۔



7. اہلِ ایمان کی خوشخبری

ایمان والوں کو خوشخبری دی گئی ہے کہ وہ باغات (جنت) میں داخل ہوں گے جہاں نہ تھکن ہوگی نہ خوف۔



8. اللہ کا وعدہ سچا ہے

رسولوں کی نصرت اور ایمان والوں کی کامیابی کا وعدہ لازمی پورا ہوگا۔



9. اختتامی پیغام

قرآن سب لوگوں کے لیے پیغام ہے، تاکہ وہ جان لیں کہ صرف ایک ہی اللہ ہے اور عقل والے نصیحت حاصل کریں۔



خلاصہ کلام:


سورۃ ابراہیم ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ:


شکر گزار بندہ بنو


اللہ کو واحد معبود مانو


انبیاء کی دعوت پر ایمان لاؤ


دنیا کے دھو

کے میں نہ آؤ


قیامت کو یاد رکھو اور عملِ صالح کی تیاری کرو



Comments

Popular posts from this blog

اللہ کی قدرت: ہر چیز پر قادر رب کی نشانیاں

سورۃ التین کا آسان اردو ترجمہ اور سبق آموز تفسیر

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت