"ایمانداری کا انعام"
سبق آموز کہانی: "ایک کسان کی ایمانداری"
تعارف
زندگی میں ہر انسان کو کبھی نہ کبھی ایسے مواقع ملتے ہیں جہاں اسے یہ فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ صحیح راستہ اختیار کرے یا غلط۔ ایسے موقع پر جو شخص ایمانداری اور سچائی کا دامن تھام لیتا ہے، وہ نہ صرف اپنی عزت بچاتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت کا بھی مستحق بن جاتا ہے۔ یہ کہانی ایک ایسے ہی کسان کے بارے میں ہے جس کی ایمانداری نے نہ صرف اس کی زندگی بدل دی بلکہ دوسروں کے لیے بھی ایک روشن مثال قائم کر دی۔
کہانی کا آغاز
کسی گاؤں میں غلام حسین نام کا ایک غریب کسان رہتا تھا۔ وہ دن رات کھیتوں میں محنت کرتا، تھوڑا سا اناج اگاتا، اور بمشکل اپنے گھر کا خرچ پورا کرتا۔ غلام حسین کا سب سے بڑا خزانہ اس کی ایمانداری تھی۔ گاؤں میں سب لوگ اس کی سچائی کی مثال دیتے تھے۔
ایک دن کی بات ہے، غلام حسین کھیت سے واپس آ رہا تھا کہ راستے میں اسے زمین پر ایک بڑی سی تھیلی پڑی نظر آئی۔ اس نے قریب جا کر دیکھا تو تھیلی سونے کے سکوں سے بھری ہوئی تھی۔
ضمیر کی آواز
ایک لمحے کے لیے اس کے دل میں خیال آیا کہ یہ سونا گھر لے جاؤں تو میری غربت ختم ہو سکتی ہے۔ میں بڑا مکان بنا سکتا ہوں، اچھے کپڑے پہن سکتا ہوں اور بیٹے کو شہر کے اسکول میں پڑھا سکتا ہوں۔ لیکن فوراً اس کے دل میں ایک اور آواز آئی:
"یہ سونا میرا نہیں ہے۔ اگر میں نے اسے رکھ لیا تو یہ چوری ہوگی، اور اللہ تعالیٰ چوروں کو پسند نہیں کرتا۔"
ایمانداری کا فیصلہ
غلام حسین نے تھیلی اٹھائی اور سیدھا گاؤں کے بڑے چودھری کے پاس پہنچ گیا۔ اس نے چودھری کو پوری بات بتائی اور تھیلی اس کے حوالے کر دی تاکہ اصل مالک تک پہنچ سکے۔ گاؤں کے لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اتنی بڑی دولت ملنے کے باوجود غلام حسین کے دل میں لالچ نہیں آیا۔
مالک کی تلاش
چودھری نے گاؤں میں اعلان کروایا کہ جس کا سونے کے سکوں کی تھیلی گم ہوئی ہے وہ آ کر نشانیاں بتا دے۔ اگلے دن ایک بزرگ شہر سے آئے اور نشانی بتا کر ثابت کر دیا کہ تھیلی ان کی ہے۔ بزرگ شخص ایک تاجر تھے، اور یہ سونا وہ کاروبار کے لیے لے جا رہے تھے جب راستے میں گر گیا تھا۔
انعام کی پیشکش
تاجر نے غلام حسین کا شکریہ ادا کیا اور کہا:
"بیٹا! تم نے میرا اتنا بڑا نقصان ہونے سے بچا لیا ہے۔ یہ لو آدھے سکے اپنے لیے رکھ لو، یہ تمہارا حق ہے۔"
لیکن غلام حسین مسکرا کر بولا:
"حاجی صاحب! میں نے یہ سونا اس لیے واپس نہیں کیا کہ مجھے انعام ملے، بلکہ اس لیے واپس کیا کہ یہ میرا نہیں تھا۔ میرا انعام اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔"
اللہ کا انعام
تاجر غلام حسین کی بات سن کر بہت متاثر ہوا۔ اس نے دل ہی دل میں سوچا کہ ایسا ایماندار آدمی آج کے زمانے میں بہت کم ملتا ہے۔ چند دن بعد تاجر دوبارہ گاؤں آیا اور غلام حسین کو پیشکش کی کہ وہ اس کے کھیت خرید کر اسے شہر میں اپنے گودام کی دیکھ بھال پر رکھ لے۔ غلام حسین نے یہ پیشکش قبول کر لی اور جلد ہی اس کی زندگی بہتر ہو گئی۔
اخلاقی سبق
یہ کہانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ:
1. ایمانداری ہمیشہ فائدہ دیتی ہے، چاہے وقتی طور پر نقصان نظر آئے۔
2. لالچ انسان کو برائی کی طرف لے جاتا ہے، اور صبر و شکر انسان کو عزت دلاتا ہے۔
3. اللہ تعالیٰ ایماندار بندوں کو کبھی محروم نہیں رکھتا۔
4. جو چیز ہماری نہیں ہے، اسے رکھنا گناہ ہے۔
قرآنی حوالہ
اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:
> "إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ"
بیشک اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ (سورۃ البقرہ: 195)
نتیجہ
زندگی میں ایمانداری ایک ایسا چراغ ہے جو انسان کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جاتا ہے۔ غلام حسین جیسے کردار ہی معاشرے کو بہتر اور محفوظ بناتے ہیں۔ اگر ہم سب سچائی اور دیانت داری کو اپنی عادت بنا لیں تو دنیا جنت کا گہوارہ بن سکتی ہے۔
Comments
Post a Comment